بے راہ روی سے بے سکونی تک

 بے راہ روی سے بے سکونی تک

میں ایک وائرل آڈیو سن رہا تھا جس میں ایک شادی شدہ خاتون اپنی سہیلی کو اپنے ناجائز تعلق کی کہانی سنا رہی تھی اور ا  پنے اس عاشق کی بے وفائی کا ذکر کیا کہا کہ میں ایک غریب عورت  ہوں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہو ں  ماہ رمضان میں صدقہ فطر جمع کیا اور اس کے لیے ایک سوٹ تیار کیا اور اس کو ملنے گئی لیکن اس نے مجھے لوٹ لیا کہ اس نے مجھے کوئی تحفہ نہیں دیا اور یہ شکوہ بھی کیا کہ اس کو پیار کرنا بھی نہیں آتا تھا بس شکل و صورت کا اچھا تھا لیکن معاملات عشق میں نہ بلداسے چند گالیاں دی اور کہا کہ میرااب فون بھی نہیں سنتا  دوسری سہیلی نے پوچھا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے تو پہلی نے اس پر بہت بیزار ہوکر بتایا کے ابھی باہر اٹھ گیا ہے بوڑھا ہو گیا ہے وہ مجھے اس سے کوئی پیار و محبت نہیں اور نہ ہی وہ مجھے کوئی زیادہ پیار کرتا ہے اس پر دوسری سہیلی نے کہابس نصیب میں ا یسے لکھا ہوتا ہے(نصیب پر شکوہ کیا  ) تم اس معاملے میں بدقسمت ہو میں اس معاملے میں لکی ہوں کہ میں نے اچھے اچھے یار بنائے ہیں جو بہت مزے کر ا تے ہیں تو اس پر پہلی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ کاش مجھے بھی کوئی اچھا یار ملے میں اسے تحفے دو ں  اور وہ بھی مجھے تحفے دے وہ مجھے بہت زیادہ پیار کرے اور میں بھی اس سے پیار کروں لیکن اس نے میرے ساتھ دھوکا کیا ۔۔  اس بات پر مجھے شدید حیرت ہوئی کہ گناہ کو فخر سے بیان کیا جارہا ہے اور گناہ کے اس تعلق کی تصوراتی خواہش ہے لیکن مجازی خدا اور نیکی کے تعلق سے بیزاری کیا اس راستے پر چل کر زندگی میں سکون مل سکتا ہےہرگز نہیں  چند دن چند راتوں کی جوانی ہے پلک جھپکتے ہی ختم ہوجاتی ہے لیکن بڑھاپا بہت تکلیف ده  بن جاتا ہے ایسے لوگوں کا کتنی جہالت والی بات ہے کہ تباہ ہونے والے راستے پر چل کر ہم سکون تلاش کرتے ہیں سمجھتے ہیں قدرت کو دھوکہ دے لیں گے یہ ایسی

 ناشکری روحیں 

ہیں جو اپنی دنیا و آخرت تباہ کرنے والے راستے پر چل پڑتی ہیں گناہ دل کا سکون تباہ کرتے ہیں ایک یہ کہانی ہے اور ایک     کہانی میں اب بیان کر رہا ہوں جو قدرت کو سمجھنے میں بہت اہم ہیں 

چاچا اللہ بخش گورکن نہایت ہی شفیق انسان درد دل رکھنے والے آدمی ہیں ان سے میری دوستی بہت پرانی ہے جس وقت میں ملوک شاہ سے ملحقہ مڈل  سکول میں پڑھتا تھا دوستی کیا باپ بیٹے والا تعلق ہیں چاچا پیشے کے لحاظ سے گورکن یعنی  قبریں کھودتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ تھوڑا بہت طب و حکمت کا کام بھی کر لیتے تھے بعض اوقات دن کے وقت اور بعض اوقات رات کو بھی انہیں قبر تیار کرنا پڑتی اور جس وقت وہ قبر تیار کر لیتے وہ خود اس میں لیٹ کر دیکھتے تھے میں ان سے اکثر یہی پوچھنا تھا کہ چاچا آپ کو ڈر نہیں لگتا تو وہ کہتے کہ ڈر کس بات کا آخریہ نوبت تو آنی ہے ایک نہ ایک دن میں نے چاچا  سے پوچھا کہ آپ دن رات قبرستان میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں کبھی آپ نے اپنی زندگی میں کوئی جن بھوت دیکھےتو انہوں نے کہا بیٹا میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی جن بھوت نہیں دیکھا لیکن بیٹا ایک خوشبو ایک مہک جو تقریبا آج سے کوئی پچیس سے تیس سال پہلے میرے سانسوں نے سو نگھی میں آج تک نہیں بھول سکا ہوا کچھ یوں کہ مجھے عصر کے وقت ایک قبر کھودنے کا آرڈر ملا اور ورثہ نشان دیکھا  کر چلے گئے اس جگہ سے بہت پر لطف خوشبو آ رہی تھی میں سمجھا کہ شاید وہ جو مجھے قبر کا نشان دینے آئے تھے انھوں نے کوئی عطریا پرفیوم لگایا ہوا ہوگا لیکن ایسی بات نہیں تھی وہ چلے گئے لیکن وہ پیاری پیاری خوشبو آتی رہی غور کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ وہ خوشبو تو ساتھ والی قبر سے آ رہی تھی اس دن کے بعد میں اکثر اوقات جب اداس ہوتا یا پریشان ہوتا تو اس قبر کے پاس چلا جاتا اور وہ پرکیف خوشبو سے محظوظ ہوتا مجھے تجسس ہوا کہ یہ قبر ضرور کوئی اللہ والے ولی کی ہوگی میں اس کوشش میں لگ گیا کہ معلوم کروں کہ یہ قبر کس کی ہے کوئی تقریبا  سات آٹھ دن بعد میں نے اس قبر کے پاس ایک آدمی کو فاتحہ پڑھتے دیکھا میں اس کے پاس کیا اور اس شخص سے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے تو اس نے کہا خیریت یہ میری اہلیہ کی قبر ہے میں نے اسے سارا ماجرا سنایا تو اس نے مجھے بتایا بابا میری جب اس خاتون سے شادی ہوئی تو میں شادی کے قابل نہیں تھا اس اللہ کی  بندی کا میرے ساتھ 6سال کا ساتھ رہا ایک ایکسیڈنٹ میں اس کی وفات ہوئی اس اللہ کی بندی نے  کسی کو محسوس تک نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی مجھے کوئی طعنہ دیا بہت پر اطمینان رہتی تھی اور میری بھرپور خدمت کی یہ ذکر کرتے کرتے وہ شخص بے اختیار رو پڑا  اور کافی دیر تک روتا رہا ۔۔۔۔۔

یہ دو واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں

Comments