یر تیتر والی سرکار
پیر تیتر والی سرکار نوسربازی میں کمال مہارت رکھتا تھا 90s
کی دہائی میں اس ڈھونگی پیر کے آستانے پر اتوار اور بدھ مریدین کی قطاریں لگی ہوئی ہو تین تھیں اور اس سے ملاقات کے لئے اپنی باری کا ایسے انتظار کرتے جیسے آجکل کسی بہت بڑے ماہر فزیشن کے مریض ۔۔اس پیر کے سائل صرف ان پڑھ مرد و خواتین ہی نہیں بلکہ کافی پڑھے لکھے لوگ بھی ہوتے تھے ایک پیالی میں زعفران بھیگو کر رکھا ہوتا تھا جس میں ایک قلم بھی ڈبو یا ہوتا تھا کلپ بورڈ کے اندر سفید کاغذ ہوتے جن پر وہ سائلین کو تعویذ لکھ کر استعمال کا طریقہ سمجھاتے اور اگر وہ اتوار کے روز ہوتا تو next بدھ کو اور اگر بدھ کا دن ہوتا تو نیکسٹ اتوار کی تاریخ دیتے عورتیں اپنے شوہر کو راہ راست پر لانے.سا س نند کی طبیعت صاف کرانے۔ نوجوان لومیرج۔ نوکری لگوانے۔ کاروباری حضرات کاروبار میں ترقی ۔نوکری والے اپنے صاحب کو اپنے گرویدہ بنانے الغرض ہر مسئلے کے حل کا تعویذ بڑے رعب و دبدبہ کے ساتھ دیا جاتا بعض اوقات کسی شعبدابازی سے بھی پیر صاحب اپنے مریدین کو متاثر کرتے تھے مثلاً پانی میں کچھ پڑھ کر انگلی ڈبو کر میٹھا کرنا ۔آگ لگانا کرنسی نوٹ حاضر کرنا۔ وغیرہ وغیرہ کچھ مریدین پر وہ خاص دم بھی کرتے تھے دو عدد تیتر پنجرے میں ساتھ رکھے ہوئے تھے پیر صاحب کا احمد پور کے کسی گاؤں میں رقبہ بھی تھا جو کسی تحصیلدار مرید کے ذریعے الاٹ منٹ کروایا تھا یہاں آستانے پر ہفتہ کو شام کو آتے اور اتوار کو شام کو واپس چلے جاتے اسی طرح منگل کی شام کو آتے اور پھربدھ شام کو اچھے خاصے تحفے اور رقم جمع کرکے واپس احمدپور چلے جاتے پیر صاحب کی چار بیٹیاں اور تین بیٹے تھے لوگ پیر سب سے بڑی عقیدت کے ساتھ بچوں کی اصلاح اور شوق سے پڑھنے کے لئے تعویذ لے جاتے جبکہ پیر صاحب کے تمام کے تمام بچے بگڑے ہوئے تھے لقمہ حرام اپنا کام دکھا رہا تھا تینوں بیٹے بیٹیوں سے چھوٹے تھے میں ان دنوں ایف-ایس-سی کا سٹوڈنٹ تھا ہم محلے کے تمام نوجوان پیر صاحب کو ماموں بلاتے تھے اکثر پیر صاحب کے بیٹوں کو سینما اور منی سینماوو ں سے ڈھونڈ کر لانے میں ہماری مدد لیتے تھے میں اکثر پیر صاحب کو تعویزات والے کام چھوڑنے کی تبلیغ بھی کرتا تھا ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اتوار کا دن تھا پیر صاحب کا کام زور و شور سے رواں دواں تھا مریدین باری باری اپنے مسئلے کے حل کے تعویذ لے کر نذرانہ جمع کرا کر جارہے تھے میں پیر صاحب کے پاس ویسے ہی بیٹھا ہوا تھا ایک ماں جی ۔ حالت سے نہایت ھی غریب لگتی تھیں آئیں اور بڑے احترام سے اپنا مسئلہ بتایا کہ ان کا بارہ ۔تیرا سال کا بیٹا گھر چھوڑ کر بھاگ گیا تھا وہ بہت پریشان تھی پیر صاحب سے کہا کہ کوئی دم کریں تعویذ دیں کہ وہ گھر واپس آ جائے پیر صاحب نے چند تعویذ دیئے دم کیا اور طریقہ بتایا دوبارہ بدھ کو ایک تولہ زعفران دو ماشے کسطوری وغیرہ لانے کا کہا اپنے خاص طریقے سے کہ یہ چیزیں خریدتے وقت سورہ جن پڑھنے ہوتی ہے لہذا پیسے جمع کروا دیں ماں جی بچاری نے اپنے دوپٹے کے پلو سے تمام رقم دو اڑھائی سو نکالیں اس میں صرف دس روپے اپنے پاس واپس جانے کے کرائے کے لیے رکھے اور باقی تمام پیر صاحب کو دے دیے اور عرض کی کہ ابھی تو یہی پیسے ہیں باقی آپ کو بد ھ لا کر دوں گی مجھے بےحد ترسا آیا اور پیر صاحب پر شدید غصہ بھی ۔ جیسے ہی وہ خاتون باہر نکلی میں بھی ان کے ساتھ باہر نکل پڑا اور گلیوں سے جب باہر نکلے تو میں نے ماں جی کو آواز دی اور کہا کہ آپ نے ایسے فضول میں اپنی محنت کی کمائی اس پیر کو دیے کر ضائع کی اگر ان کے پاس کوئی کرامت ہوتی یا یہ اتنے قابل ہوتے تو ان کے بیٹے روزانہ سینماؤں سے ھم ڈھونڈھ کر لاتے ہیں یہ اپنے تعویذات اور دم کے ذریعے ان کو بلا لیتے پھر میں نے وضاحت کی کے ماں جی ہوگا یوں کہ آپ روئیں گی دعائیں کریں گی چند روز میں اللہ پاک نے آپ کی دعائیں ضرور سن لینی ہیں اور ان کے نتیجے میں آپ کے بیٹے کو واپس بھیج دیں گے لیکن آپ سمجھیں گی کے پیر کے تعویذات کا اثر ہے ماں جی نے میری بات پوری توجہ سے سنی اور مجھ سے پوچھا بیٹا اگر کوئی اور اچھا سا قابل پیر ہے تو وہ مجھے بتائیں
بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوئی اگلے بدھ جب پھر وہ خاتون پیر صاحب کے پاس آئں تو اس کو یہ بھی بتایا کہ میں نے ان کو کیا کہا تھا
Comments
Post a Comment